جنس ایک وسیع اور دقیع موضوع ہے ۔ اس کی سرحدیں لامحدود ہیں ۔ اس کی کارفرمانیاں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی جھلکیاں دکھاتی ہیں ۔ اس ویب سائیٹ کے مطالعہ سے آپ کو معلوم ہو گا کہ جنس میں کتنی وسعت ہے اور اس پر حاوی ہونا، اسے انفرادی اور سماجی زندگی کی مسرتوں کے حصول میں صرف کرنا کتنا آسان ہے ۔ بشرطیکہ آپ اس کی حقیقت سے واقف ہو جائیں ۔ اس ویب سائیٹ میں آپ برسوں کی تحقیقات کا نچوڑپائیں گے ۔ معلومات کا ایسا خزانہ جسے پا کر آپ محسوس کریں گے کہ اس کے بغیر کتنی تشنگی ہے ! یہ ویب سائیٹ یقینا آپ کوجنس کے حقائق سے روشناس کرائے گی۔ یہ ماہرین جنسیات کی سالہا سال کی تحقیق کا نتیجہ ہیں ۔ جن پر آپ پوری طرح بھروسہ کر سکتے ہیں ۔
آج دنیا بھر کے ماہرین جنسیات اور نفسیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ عورت اور مرد کو ازدواجی زندگی شروع کرنے سے پہلے جنس کے تعلق سے نظری طورپر ضرور واقفیت حاصل کر لینی چاہئے ۔ ازدواجی زندگی میں مباشرت کی مسرت حقیقی محبت کی بنیاد ہوتی ہے اسی لئے اس کتاب میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ نئے اور پرانے شادی شدہ جوڑوں کو شادی کے جنسی پہلو سے پوری طرح روشناس کرایا جائے تاکہ وہ ان معلومات کی روشنی میں ازدواجی زندگی کامیابی سے بسر کر سکیں ۔
آج دنیا بھر کے ماہرین جنسیات اور نفسیات کی یہ متفقہ رائے ہے کہ عورت اور مرد کو ازدواجی زندگی شروع کرنے سے پہلے جنس کے تعلق سے نظری طورپر ضرور واقفیت حاصل کر لینی چاہئے ۔ ازدواجی زندگی میں مباشرت کی مسرت حقیقی محبت کی بنیاد ہوتی ہے اسی لئے اس کتاب میں اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ نئے اور پرانے شادی شدہ جوڑوں کو شادی کے جنسی پہلو سے پوری طرح روشناس کرایا جائے تاکہ وہ ان معلومات کی روشنی میں ازدواجی زندگی کامیابی سے بسر کر سکیں ۔
انسان کی جسمانی بناوٹ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بقاء کے لیے اس کے جسم کی دو خاص ضرورتیں پوری کرنی پڑتی ہیں ۔ ایک تو یہ ضرورت ہے جس سے اس کے جسم کے پرورش ہو ، اس کے نشوونما ہو اور دوسری ضرورت وہ ہے جس جس سے نسل انسانی قائم رہے ۔ پہلے فعل میں خوراک کا ہضم کرنا ، تنفس اور فضلات کا اخراج وغیرہ شامل ہیں اور دوسرا فعل تولید ہے ، جس سے انسان اپنی نسل کو بڑھاتا ہے ۔ ان دونوں ضرورتوں کے لیے جو اعضاء درکار تھے قدرت نے ان سب کو جسم انسانی میں مناسب اور موزوں جگہ مکمل حالت میں مہیا کردئیے ہیں ۔
جانور اپنے اعضائے تولید ، قانون قدرت کے تابع رہ کر خاص خاص وقت پر استعمال کرتے ہیں لیکن حضرت انسان جس وقت چاہے اپنی جنسی کواہش پوری کرنےکے لیے طبعی قوانین کی پرواکئے بغیر مشغول کار ہوسکتا ہے ۔ اس لیے ہر سمجھدار جوڑے کو ایک دوسرے کے آلات ِ تناسل کے افعال کے بارے میں با خبر رہنا ضروری ہے ، ورنہ بعض صورتوں میں لاعلمی مضحکہ خیز اور شرمندگی کا باعث ہوسکتی ہے ۔ عورت سے زیادہ مرد کے لیےیہ ضروری ہے کہ وہ عورت کے جنسی اعضاء اور ان کے افعال کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرے ، کیونکہ جنسی ملاپ میں وہ فاعل ہے اورعورت مفعول ۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ شادی کے ابتدائی زمانہ میں مرد ہی کو پہل کرنی پڑتی ہے اور ان دنوں بیوی سے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ اس بارے میں شوہر کی رہنمائی کرے گی ، عورت کی فطری شرم کو چیلنج کرنا ہے ۔
سارے حیوانات میں حضرت انسان اور میاں بندر ہی ایسے خوش قسمت یں جن کے اعضائے تولید بیرونی حصے ہی میں ہوتے ہیں ۔ ان کے سوا ء ۔۔۔ سارے جانوروں کے آلات تناسل اندر چھپے ہوئے رہتے ہیں اور وقت ضرورت تھیلی سے باہر آتے ہیں ۔
مرد کے اعضائے تناسل ناف سے نیچے کی طرف دونوں رانوں کے بیچ میں ہوتے ہیں ۔۔ یہ گویا لٹکتے ہوئے تین پھل کی مانند ہوتے ہیں ۔۔ جیسے ایک کیلا اور دو انجیر ہوں۔ کیلے کی شکل کی جو چیز ہے وہ اعضائے تناسل کہلاتی ہے اور عام لفظوں میں اسے قضیب یا ذکر کہا جاتا ہے ۔
ذکر مباشرت میں حصہ لینے والا سب سے اہم عضو ہے ۔ ذکر کے نیچے گوشت کی ایک پتلی سے تھیلی میں کبوتر کے انڈے کے برابر ، بیضوی شکل کی دو گٹھلیاں ہوتی ہیں جو "خصئیے" یا "فوطے " کہلاتے ہیں ۔
فوطے مرد کے جسم سے باہر رہنے والے خاص جنسی اعضاء ہیں ۔ چونکہ اولاد پیدا کرنے میں یہ خاص حصہ لیتے ہیں ، اس لیے قدرت نے انھیں ایک تھیلی میں بند کرکے ان کی حفاظت کی ہے ۔ فوطے دو اہم کام انجام دیتے ہیں ۔ ان کا پہلا اہم کام مرد کے مادہ تولید کے جراثیم تیار کرنا ہے ۔ اسی لیے انھیں ایک کارخانہ کا نام دیا جاتا ہے ۔ منی کے جراثیم اور عورت کے بیضہ کے ملنے سے ہی حمل ٹھہرتا ہے ۔
فوطوں کا دوسرا کام ایک طرح کا رس یا لعاب بنانا ہے ، جو ان سے نکل کر براہ راست خون میں ملتا رہتا ہے۔ اس رس یعنی ہارمون سے مرد میں قوت مردمی اور قوت باہ ہیدا ہوتی ہے ۔ ڈاڑھی ، مونچھ اور سینہ کے بال وغیرہ جیسی جسم کی مردانہ نشانیاں اس لعاب سے پیدا ہوتی ہیں ۔ دونوں فوطوں کے اوپر نہایت باریک نسوں کا ایک گچھا سا ہوتا ہے جسے فوطوں کا حوض کہتے ہیں ، جہاں سے ایک ایک نالی کھلتی ہے جو منی کی نلی کہلاتی ہے ۔ دراصل منی کے جراثیم اسی کے ذریعہ سفر کرتے ہیں ۔ یہ نلی یہاں سے شروع ہوکر عضو تناسل کی جڑ میں پہنچ کر پیشاب کے راستے میں کھل جاتی ہے ۔
یہ نلیاں ، فوطوں سے شروع ہوکر جسم کے اندر پیٹ کے نچلے حصے میں داخل ہوتی ہیں ، جہاں یہ مثانے کہلاتی ہیں ۔ مثانوں میں فوطوں سے آئی ہوئی منی جمع رہتی ہے ۔ یعنی یہ مثانے ایک گودام کا کام دیتے ہیں ۔ ن مثانوں سے ایک طرح کا لعاب نکلتا ہے، جو منی کے جراثیم کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے ۔ مثانے کے آگے گلٹیاں ہوتی ہیں ۔ مباشرت میں انزال کے وقت ان گلٹیوں سے بھی ایک لعاب نکلتا ہے اور منی کے جراثیم کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ ان گلٹیوںسے نکلنے والا لعاب چکنا اور پتلا ہوتا ہے ۔ اس لیے منی کے جراثیم آسانے سے حرکت کر سکتے ہیں ۔
عضو تناسل کی جڑوں کے دائیں اور بائیں طرف دو اور گلٹیاں ہوتی ہیں ۔ دل میں جنسی ہیجان پیدا ہوتے ہی یہ گلٹیاں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں ۔ ان سے بھی ایک خاص قسم کا لعاب نکلتا ہے جو نہ صرف منی کے جراثیم کے راستےکو بے خطر بنا دیتا ہے بلکہ یہ لعاب عضو تناسل کے سر کو بھی چکنا کر دیتا ہے تاکہ ذکر عورت کی اندام نہانی میں آسانی سے داخل ہو سکے ۔
فوطوں کی تھیلی کے گوشت پر چربی نہیں ہوتی ۔ فوطوں کی تھیلی قدرتی طور پر سردی کے موسم میں سکڑی رہتی ہے اور گرمی کے دنوں میں پھیل کر لٹک جاتی ہے بایاں فوطہ دائیں فوطے سے قدرے بڑا ہوتا ہے ۔ اس لیے بایاں فوطہ دائیں سے ذرا نیچے لٹکتا ہے ۔ اکثر لوگ فوطوں کو چھوٹا بڑا دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور و ہ اس فرق کو کوئی اندرونی خرابی تصور کرنے لگتے ہیں ، لیکن یہ کوئی خرابی نہیں بلکہ قدرتی بات ہے ۔۔۔۔
خصیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وقت بے وقت چھوٹے بڑے ہوتے رہتے ہیں ۔ خصیوں کے کبھی لٹکنے اور سکڑنے کی وجہ ہی ہے کہ خصیئے جسمانی گرمی پر حیاتی کیڑے نہیں بنا سکتے ۔ اس لیے وہ جسم سے علیحدہ ایک تھیلی میں رہتے ہیں ۔ جب جسم کی حرارت بڑھتی ہے تو یہ زیادہ لٹک جاتے ہیں تاکہ جسم کی حرارت کا ان پر اثر نہ پڑ ے ۔ عموما بخار کی حالت میں یہ ہوتا ہے ، لیکن جب سردی پڑتی ہے یا عضو پر ٹھنڈا پانی ڈالا جائے تو وہ سکڑجاتے ہیں تاکہ یہ جسم سے کچھ گرمی لے کر اپنا مخصوص درجہ حرارت برقرار رکھیں۔
ذکر مرد کا دوسرا عضو جنسی ہے جو جسم کے باہر ہے ۔ عورت کے اندام نہانی میں داخل ہونے والا یہی عضو ہے ۔ ذکر کے ذریعہ ہی منی کے جراثیم عورت کی فرج کی گہرائی میں پہنچائے جاتے ہیں ، جہاں وہ عورت کے پختہ بیضے سے ملنے کی وجہ سے حمل قرار پاتا ہے ۔ دراصل عضو تناسل کا کام ایک پچکاری کا ہے ۔ عام حالت میں مرد کایہ عضو ڈھیلا اور سکڑا ہوا رہتا ہے لیکن جنسی ہیجان پیدا ہونے کے بعد یہ پھول کر موٹا اور لمبا اور ہڈی جیسا بن جاتا ہے بلکہ تانبے کی طرح سرخ اور سیخ کی طرح سخت ہو جاتا ہے ۔ اس حالت میں ذکر اپنی سختی کے باعث ہی عورت کی فرج میں داخل ہونے میں کامیاب ہوتا ہے ۔
عضوِ تناسل میں یہ تبدیلی اور سختی اس کے خالی یا کھوکھلے خلیوں میں خون بھر جانے سے آجاتی ہے ۔ عضوِ تناسل کے فوری چھوٹے یا بڑے ہونے کی اس کیفیت اور صلاحیت کو سمجھنے کے لیے اس کی ساخت کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ذکر تین بڑے پٹھوں سے بنا ہوتا ہے ۔ اوپر کے دو پٹھے قدرے تکونی شکل کے اور لمبے ہوتے ہیں ۔ یہ عضو تناسل کی جڑ سے نکل کر اس کے سرے تک پہنچتے ہیں ۔ تیسرا پٹھا ذکر کے نچلے حصے میں رہتا ہے اور اس کے درمیان سے پیشاب کی نالی گزرتی ہے جو پیچھے مثانے سے شروع ہو کر عضو تناسل کے سرے کے بیرونی سوراخ پر آکر ختم ہوجاتی ہے ۔ اس تیسرے پٹھے کا اگلا حصہ ہی ذکر کا سرا ہے ، جو "حشفہ" کہلاتا ہے ، لیکن اس کی شکل چونکہ سپاری سے مشابہ ہوتی ہے اس لیے اسے "سُپاری" بھی کہتے ہیں ۔
عضوِتناسل جب پھولتااور اکڑتا ہے تو یہ بھی پھول جاتا ہے لیکن ذکر کے پچھلے حصے کی طرح سخت نہیں ہوتا بلکہ گُد گُدا رہتا ہے تاکہ مباشرت کے وقت عورت کے نازک جنسی اعضاء پر ضرب نہ آئے ، تکلیف نہ ہو ، ذکر کی یہ سپاری اور خاص طور پراس کا پیچھے اٹھا ہوا کنارہ بڑا ہی حساس ہوتا ہے ۔ مباشرت کے وقت مرد اسی حصے میں لذت محسوس کرتا ہے ۔
جانور اپنے اعضائے تولید ، قانون قدرت کے تابع رہ کر خاص خاص وقت پر استعمال کرتے ہیں لیکن حضرت انسان جس وقت چاہے اپنی جنسی کواہش پوری کرنےکے لیے طبعی قوانین کی پرواکئے بغیر مشغول کار ہوسکتا ہے ۔ اس لیے ہر سمجھدار جوڑے کو ایک دوسرے کے آلات ِ تناسل کے افعال کے بارے میں با خبر رہنا ضروری ہے ، ورنہ بعض صورتوں میں لاعلمی مضحکہ خیز اور شرمندگی کا باعث ہوسکتی ہے ۔ عورت سے زیادہ مرد کے لیےیہ ضروری ہے کہ وہ عورت کے جنسی اعضاء اور ان کے افعال کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرے ، کیونکہ جنسی ملاپ میں وہ فاعل ہے اورعورت مفعول ۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ شادی کے ابتدائی زمانہ میں مرد ہی کو پہل کرنی پڑتی ہے اور ان دنوں بیوی سے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ اس بارے میں شوہر کی رہنمائی کرے گی ، عورت کی فطری شرم کو چیلنج کرنا ہے ۔
سارے حیوانات میں حضرت انسان اور میاں بندر ہی ایسے خوش قسمت یں جن کے اعضائے تولید بیرونی حصے ہی میں ہوتے ہیں ۔ ان کے سوا ء ۔۔۔ سارے جانوروں کے آلات تناسل اندر چھپے ہوئے رہتے ہیں اور وقت ضرورت تھیلی سے باہر آتے ہیں ۔
مرد کے اعضائے تناسل ناف سے نیچے کی طرف دونوں رانوں کے بیچ میں ہوتے ہیں ۔۔ یہ گویا لٹکتے ہوئے تین پھل کی مانند ہوتے ہیں ۔۔ جیسے ایک کیلا اور دو انجیر ہوں۔ کیلے کی شکل کی جو چیز ہے وہ اعضائے تناسل کہلاتی ہے اور عام لفظوں میں اسے قضیب یا ذکر کہا جاتا ہے ۔
ذکر مباشرت میں حصہ لینے والا سب سے اہم عضو ہے ۔ ذکر کے نیچے گوشت کی ایک پتلی سے تھیلی میں کبوتر کے انڈے کے برابر ، بیضوی شکل کی دو گٹھلیاں ہوتی ہیں جو "خصئیے" یا "فوطے " کہلاتے ہیں ۔
فوطے مرد کے جسم سے باہر رہنے والے خاص جنسی اعضاء ہیں ۔ چونکہ اولاد پیدا کرنے میں یہ خاص حصہ لیتے ہیں ، اس لیے قدرت نے انھیں ایک تھیلی میں بند کرکے ان کی حفاظت کی ہے ۔ فوطے دو اہم کام انجام دیتے ہیں ۔ ان کا پہلا اہم کام مرد کے مادہ تولید کے جراثیم تیار کرنا ہے ۔ اسی لیے انھیں ایک کارخانہ کا نام دیا جاتا ہے ۔ منی کے جراثیم اور عورت کے بیضہ کے ملنے سے ہی حمل ٹھہرتا ہے ۔
فوطوں کا دوسرا کام ایک طرح کا رس یا لعاب بنانا ہے ، جو ان سے نکل کر براہ راست خون میں ملتا رہتا ہے۔ اس رس یعنی ہارمون سے مرد میں قوت مردمی اور قوت باہ ہیدا ہوتی ہے ۔ ڈاڑھی ، مونچھ اور سینہ کے بال وغیرہ جیسی جسم کی مردانہ نشانیاں اس لعاب سے پیدا ہوتی ہیں ۔ دونوں فوطوں کے اوپر نہایت باریک نسوں کا ایک گچھا سا ہوتا ہے جسے فوطوں کا حوض کہتے ہیں ، جہاں سے ایک ایک نالی کھلتی ہے جو منی کی نلی کہلاتی ہے ۔ دراصل منی کے جراثیم اسی کے ذریعہ سفر کرتے ہیں ۔ یہ نلی یہاں سے شروع ہوکر عضو تناسل کی جڑ میں پہنچ کر پیشاب کے راستے میں کھل جاتی ہے ۔
یہ نلیاں ، فوطوں سے شروع ہوکر جسم کے اندر پیٹ کے نچلے حصے میں داخل ہوتی ہیں ، جہاں یہ مثانے کہلاتی ہیں ۔ مثانوں میں فوطوں سے آئی ہوئی منی جمع رہتی ہے ۔ یعنی یہ مثانے ایک گودام کا کام دیتے ہیں ۔ ن مثانوں سے ایک طرح کا لعاب نکلتا ہے، جو منی کے جراثیم کو آگے بڑھنے میں مدد دیتا ہے ۔ مثانے کے آگے گلٹیاں ہوتی ہیں ۔ مباشرت میں انزال کے وقت ان گلٹیوں سے بھی ایک لعاب نکلتا ہے اور منی کے جراثیم کے ساتھ مل جاتا ہے ۔ ان گلٹیوںسے نکلنے والا لعاب چکنا اور پتلا ہوتا ہے ۔ اس لیے منی کے جراثیم آسانے سے حرکت کر سکتے ہیں ۔
عضو تناسل کی جڑوں کے دائیں اور بائیں طرف دو اور گلٹیاں ہوتی ہیں ۔ دل میں جنسی ہیجان پیدا ہوتے ہی یہ گلٹیاں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں ۔ ان سے بھی ایک خاص قسم کا لعاب نکلتا ہے جو نہ صرف منی کے جراثیم کے راستےکو بے خطر بنا دیتا ہے بلکہ یہ لعاب عضو تناسل کے سر کو بھی چکنا کر دیتا ہے تاکہ ذکر عورت کی اندام نہانی میں آسانی سے داخل ہو سکے ۔
فوطوں کی تھیلی کے گوشت پر چربی نہیں ہوتی ۔ فوطوں کی تھیلی قدرتی طور پر سردی کے موسم میں سکڑی رہتی ہے اور گرمی کے دنوں میں پھیل کر لٹک جاتی ہے بایاں فوطہ دائیں فوطے سے قدرے بڑا ہوتا ہے ۔ اس لیے بایاں فوطہ دائیں سے ذرا نیچے لٹکتا ہے ۔ اکثر لوگ فوطوں کو چھوٹا بڑا دیکھ کر غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور و ہ اس فرق کو کوئی اندرونی خرابی تصور کرنے لگتے ہیں ، لیکن یہ کوئی خرابی نہیں بلکہ قدرتی بات ہے ۔۔۔۔
خصیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ وقت بے وقت چھوٹے بڑے ہوتے رہتے ہیں ۔ خصیوں کے کبھی لٹکنے اور سکڑنے کی وجہ ہی ہے کہ خصیئے جسمانی گرمی پر حیاتی کیڑے نہیں بنا سکتے ۔ اس لیے وہ جسم سے علیحدہ ایک تھیلی میں رہتے ہیں ۔ جب جسم کی حرارت بڑھتی ہے تو یہ زیادہ لٹک جاتے ہیں تاکہ جسم کی حرارت کا ان پر اثر نہ پڑ ے ۔ عموما بخار کی حالت میں یہ ہوتا ہے ، لیکن جب سردی پڑتی ہے یا عضو پر ٹھنڈا پانی ڈالا جائے تو وہ سکڑجاتے ہیں تاکہ یہ جسم سے کچھ گرمی لے کر اپنا مخصوص درجہ حرارت برقرار رکھیں۔
ذکر مرد کا دوسرا عضو جنسی ہے جو جسم کے باہر ہے ۔ عورت کے اندام نہانی میں داخل ہونے والا یہی عضو ہے ۔ ذکر کے ذریعہ ہی منی کے جراثیم عورت کی فرج کی گہرائی میں پہنچائے جاتے ہیں ، جہاں وہ عورت کے پختہ بیضے سے ملنے کی وجہ سے حمل قرار پاتا ہے ۔ دراصل عضو تناسل کا کام ایک پچکاری کا ہے ۔ عام حالت میں مرد کایہ عضو ڈھیلا اور سکڑا ہوا رہتا ہے لیکن جنسی ہیجان پیدا ہونے کے بعد یہ پھول کر موٹا اور لمبا اور ہڈی جیسا بن جاتا ہے بلکہ تانبے کی طرح سرخ اور سیخ کی طرح سخت ہو جاتا ہے ۔ اس حالت میں ذکر اپنی سختی کے باعث ہی عورت کی فرج میں داخل ہونے میں کامیاب ہوتا ہے ۔
عضوِ تناسل میں یہ تبدیلی اور سختی اس کے خالی یا کھوکھلے خلیوں میں خون بھر جانے سے آجاتی ہے ۔ عضوِ تناسل کے فوری چھوٹے یا بڑے ہونے کی اس کیفیت اور صلاحیت کو سمجھنے کے لیے اس کی ساخت کو سمجھنا ضروری ہے ۔ ذکر تین بڑے پٹھوں سے بنا ہوتا ہے ۔ اوپر کے دو پٹھے قدرے تکونی شکل کے اور لمبے ہوتے ہیں ۔ یہ عضو تناسل کی جڑ سے نکل کر اس کے سرے تک پہنچتے ہیں ۔ تیسرا پٹھا ذکر کے نچلے حصے میں رہتا ہے اور اس کے درمیان سے پیشاب کی نالی گزرتی ہے جو پیچھے مثانے سے شروع ہو کر عضو تناسل کے سرے کے بیرونی سوراخ پر آکر ختم ہوجاتی ہے ۔ اس تیسرے پٹھے کا اگلا حصہ ہی ذکر کا سرا ہے ، جو "حشفہ" کہلاتا ہے ، لیکن اس کی شکل چونکہ سپاری سے مشابہ ہوتی ہے اس لیے اسے "سُپاری" بھی کہتے ہیں ۔
عضوِتناسل جب پھولتااور اکڑتا ہے تو یہ بھی پھول جاتا ہے لیکن ذکر کے پچھلے حصے کی طرح سخت نہیں ہوتا بلکہ گُد گُدا رہتا ہے تاکہ مباشرت کے وقت عورت کے نازک جنسی اعضاء پر ضرب نہ آئے ، تکلیف نہ ہو ، ذکر کی یہ سپاری اور خاص طور پراس کا پیچھے اٹھا ہوا کنارہ بڑا ہی حساس ہوتا ہے ۔ مباشرت کے وقت مرد اسی حصے میں لذت محسوس کرتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment