شادی


شادی یعنی عورت اور مرد کا ازدواجی رشتہ ہے درحقیقت انسانی تمدن کا سنگ بنیاد ہے اور کوئی فرد خواہ و عورت ہو یا مرد قانون فطرت کے اس دائرے سے خارج نہیں ہو سکتا جو اس رشتہ کو مضبوط بنانے کیلئے بنایا گیا ہے ۔ کیونکہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک عمر کے ہر حصے میں یہ رشتہ کسی نہ کسی صورت میں انسان کی زندگی پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے ۔ اگروہ بچہ ہے تو ماں اور باپ کے تعلقات اس کی تربیت پر اثر ڈالیں گے ۔ اگر جوان ہے تو اس کی شریک زندگی سے واسطہ پڑے گا۔ اگر سن رسیدہ ہے تو اس کی اولاد ازدواجی رشتے کے بندھنوں میں بندھ جائیں گی اور ان کے قطب و روح کا سکون اور ان کی زندگی کا چین بڑی حد تک ان تعلقات کی بہتری پر منحصر ہو گا۔ 

اکثر لوگ شادی کے اصل مطلب کو سمجھ نہیں پاتے ۔ درحقیقت شادی کے رشتے میں عورت اور مرد اپنی مرضی سے اپنی زندگیوں کو ایک دوسرے کیلئے وقت کر دینا چاہتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انہیں ایک دوسرے کے بغیر زندگی ادھوری اور ناکارہ معلوم ہونے لگتی ہے ۔ اسی لئے ایک دوسرے کا ہاتھ بڑی محبت اور تپاک سے تھام کر شادی کے بندھن میں ایسے بندھ جاتے ہیں کہ صرف موت ہی انہیں جدا کر سکتی ہے ۔ 

شادی نہ تو ایک ایسا قلعہ ہے جس کے قیدی باہر آناچاہتے ہیں اور نہ باہر کے آزاد لوگ اندر جانا چاہتے ہیں ۔ اور نہ ہی ایک ایسا گہرا سمندر ہے جس میں آدمی ہر دم غوطے کھانے لگتا ہے اور بلکہ اس دنیا کے بے آب و گیاہ ریگستان میں شادی ایک ایسا نخلستان ہے جہاں دو محبت بھرے دل دنیا و مافیا سے بے خبر، بے پروا، سکون کی چند گھڑیاں گذارنے میں مدد دیتے ہیں ۔ لیکن جب عورت اور مرد شادی کے مقدس بندھن میں بندھ جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ان دونوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہو جاتی ہیں ۔ کیونکہ ایک کا سکھ، دوسرے کا سکھ، ایک کی خوشی دوسرے کی خوشی ہوتی ہے ۔ کچھ چھوٹی بڑی قربانیاں بھی دینی پڑتی ہیں ۔ تب کہیں جا کر زندگی کی اصل خوشی حاصل ہوتی ہے ۔ اگر زندگی میں اونچ نیچ، اتار چڑھاؤ نہ ہوتو زندگی کا لطب ہی ختم ہو جاتا ہے ۔ ایک سپاٹ زندگی جس میں حرکت اور کشاکش نہ ہو بے جان اور بے مزہ زندگی بن جاتی ہے ۔ 

ادھر چند سالوں سے مغرب میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ تنہا مرد یا اکیلی عورت ہی خوشحال اور پرسکون زندگی گذار سکتے ہیں اور تماشہ تو یہ کہ ایسے جراثیم اڑتے اڑے مشرق تک بھی آپہنچے ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ کہ مشرق کی ساری جراثیم کش ادویات بھی اس وباء کا مقابلہ نہیں کرپا رہی ہیں ۔ اس کی ایک مسلمہ وجہ تو عورتوں کی نام نہاد آزادی ہے ۔ اصل میں عورت مرد کی جگہ لے کر الٹی گنگا بہانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔ اس کے جو بھی نتائج ہو سکتے ہیں وہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہیں لیکن اس میں مردوں کی لاپرواہی کا بھی بڑادخل ہے ۔ اگر مرد نے بار بار عورت کی عظمت کا سبق دہرا کر عورت کو اس کے اصل مقام سے نیچے نہ گرنے دیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ آج مرد خود اپنے کرتوتوں کی وجہہ سے شرمندہ ہے ۔ اگرچہ کہ پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے پھر اس کی سطح گھٹائی جاسکتی ہے ۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل کی ازدواجی زندگی کے غیر متوازن ہونے میں عورت کی آزادی کو بڑا دخل ہے ۔ حوّا کی بیٹی نے اپنا صحیح مقام کھودیا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ وہ اپنے صحیح مقام سے ہٹادی گئی ہے ۔ چراغ خانہ کے بجائے شمع محفل بنادی گئی ہے ۔ اس کا صحیح مقام تو گھر کی چاردیواری ہے نہ کہ عالمی حسن کے مقابلے کا اسٹیج۔ 

یہ خیال قطعی گمراہ کن ہے کہ اکیلا مرد یا اکیلی عورت آرام دہ اور پرسکون زندگی گذارسکتے ہیں ۔ یہ نظریہ چند غیر صحت مند ذہنوں کی پیداوار ہے ۔ یقینا عورت اور مرد کی تخلیق ایک دوسرے کیلئے ہوئی ہے ۔ مرد اور عورت ایک دوسرے کے بغیر ننگے ہیں ۔ کیونکہ وہ ایک دوسرے کی پوشاک ہیں ۔ ایک دوسرے کا لباس ہیں ۔ مردعورت کے بغیر تنہا اور عورت مرد کے بغیر بے بس، کیونکہ وہ ایک دوسرے کی ڈھال ہیں ۔ دونوں کا ملاپ ہی انسانیت کی تکمیل ہے ۔ مرد اور عورت کو ایک دوسرے کی ہر قدم پر ضرورت ہوتی ہے ۔ مرد عورت کے بغیر اندھا ہے اور عورت مرد کے بغیر بے دست و پا۔ مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو پہے ئے ہیں ۔ قدرت کی قینچی کے دو پھل ہیں جو زندگی کی گانٹھوں اور گرہوں کو کاٹتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک پھل بھی علیحدہ کر دیا جائے یا ٹوٹ جائے تو قینچی ہی ناکارہ ہو جاتی ہے ۔ مختصر یہ کہ عورت اور مردکے وجود سے عالم امکاں کا وجود ہے ۔ ان دونوں کے وجود ہی سے تصویر کائنات رنگین ہے ۔ اگر چند لمحوں کیلئے ہی سہی مرد یا عورت کو اس دنیا سے ہٹا کر سوچئے تو دنیا کا سارا حسن ہی ختم ہو جائے گا؟
آج کل نوجوان مردوں اور عورتوں میں یہ خیال بھی تقویت پاتا جا رہا ہے کہ متاہلانہ زندگی میں داخل ہونے کیلئے ایک خاص مالی سطح کو چھو لینا ضروری ہے اور اگر اس کوشش میں کسی وجہہ سے دیر ہوتی ہے یا ناکامی ہوتی ہے تو وہ شادی کو اس وقت تک ملتوی کرتے رہتے ہیں کہ ایک "پیرکہن" بن جاتا ہے اور دوسرا "سدا سہاگن" دونوں ہی صورتیں چند غلط فہمیوں کا نتیجہ ہیں ۔ انسان پر مصیبتیں تو ہر دور میں آتی ہیں اور آتی رہیں گی۔ مالی دشواریوں سے گھبرا کر شادی سے پہلو تہی جوانمردی کی علامت نہیں ۔ شاید بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ دامن بچانے سے زیادہ دامن بھگونے میں مزہ ہے ۔ اس خیال سے شادی کو ملتوی کرتے رہنا کہ کل کوئی جادوئی چراغ ہاتھ لگ جائے اور پلک جھپکتے میں مالدار بن جائیں تو یہ "احمقوں کی جنت" کے مکینوں کے اطوار ہیں ۔ اس خواب خرگوش سے جتنا جلد کوئی شخص جاگ جائے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ 

جسمانی طورپر تھکا رہا ایک رکشاں راں چٹائی پر ہی اپنی بیوی کے پہلو میں اتنی ہی مزے کی نیند سوتا ہے جتنا کہ دماعی طورپر تھکا ہوا ایک موٹر نشین اپنی خواب گاہ کے نرم اور گرم بستر پر اپنی بیوی کے بغل میں محو خواب ہوتا ہے ۔ گو روپے پیسے سے آدمی کی بہت ساری ضروریات پوری ہوتی ہیں لیکن ایک جز معاش کو بھی آخر اس دنیا میں رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ اس مالدار شخص کو جس کے گھر دولت کے ڈھیر لگے ہوں۔ جہاں تک شادی کے جسمانی پہلو کا تعلق ہے دونوں ایک ہی کشتی کے سوار ہیں ۔ مہترانی ہوکہ رانی، بستر وصل پر پہنچ کر برابر اور ہم رتبہ ہو جاتے ہیں ۔ عسرت اور تنگدستی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جنسی اکھاڑے کے داؤ اور پینترے بالکل برعکس ہوتے ہیں ۔ کیونکہ بعض دفعہ سادہ چٹائی نرم بستر سے زیادہ مفید اور مزے دار ہوتی ہے ۔ نرم بستر پر محبت کے لمحے مختصر ہو سکتے ہیں اور چٹائی پر پیار کی گھڑیاں نسبتاً لمبی بھی ہو سکتی ہیں ۔ 

ہر کام وقت پر بھلا لگتا ہے ۔ شادی کا بھی ایک موسم ہوتا ہے ۔ بہار کا موسم خزاں کا پیش خیمہ ہوتا ہے ۔ یوں تو روئے زمین پر بہار اور خزاں کے موسم آتے جاتے رہتے ہیں لیکن انسان کی زندگی میں بہار کا موسم ایک مرتبہ اور صرف ایک ہی مرتبہ آتا ہے ۔ جوانی بار بار لوٹ کر نہیں آتی۔ زندگی میں صرف ایک دفعہ ہی آتی ہے ۔ اسی لئے تو یہ دیوانی کہلاتی ہے لیکن اس دیوانگی میں بھی سیانوں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں ۔ گو پڑھاپا آنے والے جیون کی صبح کا اجالا ہوتا ہے لیکن آدمی ایک مرتبہ اس دنیا سے سدھار کر پھر واپس نہیں آتا۔ 

جب ہر کام وقت پر ہی اچھا معلوم ہوتا ہے تو شادی جیسے اہم مسئلہ پر بھی اس کا اطلاق ہونا چاہئے ۔ جنس کے جسمانی اظہار کا واحد ذریعہ شادی ہے ۔ کم عمری کی شادیوں کاتو اب رواج نہیں رہا لیکن آج کل کے غیر اخلاقی اور جنسی ہیجان کے ماحول میں زیادہ عمر کی شادیاں یقیناً چند مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔ اس کا صحیح حل یہی ہے کہ ہر صحت مند عورت اور مرد، جسمانی اور دماغی پختگی کے بعد بلا کسی تاخیر کے ازدواجی رشتے میں بندھ جائے لیکن اس کیلئے کوئی بندھا ٹکا قانون نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی عمر کی ایسی کوئی پابندی لگائی جا سکتی ہے البتہ یہ فارمولا بظاہر قابل قبول ضرور معلوم ہوتا ہے۔

شادی کے ذریعہ جو نوجوان عورت اور مرد ازدواجی بندھن میں بندھ جاتے ہیں یا باندھ دیے جاتے ہیں ان کے مزاج، خیالات، نظریات، اصول اور تعلیم و تربیت میں کافی فرق ہو سکتا ہے اور ہوتا بھی ہے کیونکہ ان کی پرورش الگ الگ حالات اور مختلف ماحول میں ہوتی ہے ۔ اس لئے اگر ان دونوں میں کچھ باتیں مشترک نہ ہوں تو کوئی حیرت کی بات نہیں ۔ سماج تو ان کے بیاہ کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتا ہے ۔ ازدوجی زندگی کے سمندر میں وہ دونوں خواہ ڈوبیں خواہ تیریں چاہے وہ موجوں سے کھیلیں یا طوفان کے تھپیڑے کھائیں ۔ سماج شادی کے بعد کسی مسئلہ کو حل کرنے کے بجائے شوہر اور بیوی کیلئے کئی نئے مسائل پیدا کر دیتا ہے ۔ چونکہ اب دونوں کو ساتھ رہنا ہے اور قدم سے قدم ملا کر زندگی کے مدراج ایک ساتھ طئے کرنا ہے اس لئے سارے مسائل کے حل شوہر اور بیوی کو خود اپنی سمجھ داری، سوجھ بوجھ اور دور اندیشی سے ڈھونڈنے پڑتے ہیں ۔ 

شادی کا ایک مقصد عورت اور مرد کی رفاقت ہے لیکن دوسرا اہم مقصد افزائش نسل ہے ۔ اگر کوئی شادی شدہ جوڑا فطرت کے اس منشا کو پورا نہیں کرتا تو وہ نہ صرف اپنے ہی پر ظلم کرتا ہے بلکہ ساری نسل انسانی پر ظلم کرتا ہے جسے خودکشی کی ایک اعلیٰ قسم بھی کہا جا سکتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ازدواجی زندگی کی کامیابی و ناکامی میں بچوں کا بڑا دخل ہوتا ہے ۔ عورت میں اولاد کی خواہش ایک فطری اور ازلی جذبہ ہے لیکن وہ اس وقت تک مکمل عورت نہیں کہلاتی جب تک کہ وہ ماں نہ بن جائے ۔ اس لئے ہر شادی شدہ جوڑے کیلئے شادی کے ابتدائی دنوں میں ہی بچوں کے تعلق سے کھلے طورپر بحث کر کے کسی ایک نتیجہ پر پہنچ جانا ضروری ورنہ آگے چل کر بچوں کا مسئلہ کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے ۔ باہمی مشورے سے اس بات کا یقین کر لینا ضروری ہے کہ بچوں کی پیدائش کے تعلق سے دونوں میں کس حد تک اتفاق رائے ہے کیونکہ بعض خود غرض جوڑے تو ایسے بھی ملیں گے جو سرے سے ہی اولاد نہیں چاہتے وہ یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اگر ان کے والدین نے بھی اسی طرح سے کام لیا ہوتا تو اس دنیا میں ان کا وجود ہی نہ ہوتا۔

ایسی کون سی عورت ہو گی جو ماں بننا پسند نہیں کرے گی؟ آخر عورت کی بچہ دانی کا کیا کام ہے ؟ پستانوں سے پھوٹتے دودھ کے فوارے کس کیلئے ہیں ؟ ایک بالغ عورت کا ہر ماہ، 4,6 دنوں کیلئے مبتلا ئے حیض ہونا کس بات کی علامت ہے ؟ آحر مرد کا مادہ منویہ کس مرض کی دوا ہے ؟ یقیناً یہ سب چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ ہر عورت کی گود میں ایک کھیلتا کودتا پیارا سا بچہ ہو۔ ذرا وہ اس کی آنکھوں میں تو جھانک کر دیکھے ۔ کتنی معصومیت کے ساتھ چمکتی ہیں ۔ ان میں کتنی مسرت بھری ہوتی ہیں ۔ وہ پیاری پیاری نیلگوں آنکھیں کتنی اچھی لگتی ہیں ۔ وہ ذرا اسے گد گدا کر تو دیکھے کتنا پیارا معلوم ہونے لگتا ہے ۔ کیسی دل موہ لینے والی ہنسی ہوتی ہے اس کی، اس کے ہونٹ کیسے گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح دمکتے ہیں ۔ ایسے میں کوئی بے اولاد عورت جس کی گود ہری نہ ہوئی ہو ذرا اپنے دل سے تو پوچھے کہ آخر اس پر کیا بیت رہی ہے ؟ کون سی عورت نہیں چاہتی کہ بچے کو سینے سے نہ لگائے اور محبت میں ڈوب کر اس پر بوسوں کی بارش نہ کرے ۔ 

جو جوڑے اولاد کی خواہش نہیں کرتے وہ شاید زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرتے ہیں کیونکہ وہ زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور دولت سے محروم رہتے ہیں ۔ ایک تو وہ "تاریک دور "تھا جب کہ بانچھ عورت کو منحوس سمجھا جاتا تھا بلکہ گھر میں بچھے ہوئے بورئیے کو بانچھ عورت سے بہتر سجھا جاتا تھا اور صاحب اولاد عورت ایک مقدس ہستی سمجھی جاتی تھی۔ آج یہ "روشن زمانہ" ہے کہ اولاد سے محروم رہنا عورت اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے ۔ موجودہ دور میں ایسی عورتوں کی کمی نہیں جن کو بچوں کے تصور ہی سے نفرت ہونے لگتی ہے اور اسی بنا پر شاید وہ شادی پر تنہا زندگی کو ترجیح دیتی ہیں جو فطری جذبے سے فراریت کی ایک ناکام کوشش ہے ۔ ایک ایسی عورت کیلئے جو صحت مند اور متوازن زندگی گذارنا چاہتی ہو، مامتا کے فطری جذبہ کی تکمیل انتہائی ضروری ہے اور جو قانون فطرت سے بیزار، نام نہاد ترقی پسند عورتیں اس جذبے کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں وہ اس کے برے اثرات سے بچ کر نہیں رہ سکتیں ۔ قدرت پر شعبہ زندگی میں قانون شکن کو ہمیشہ سزا دیتی ہے ۔ چاہے خلاف ورزی کا مرتکب اس قانون کے وجود سے واقف ہو یا نہ ہو۔ بچوں سے نفرت کرنا دراصل خدا کی ذات سے نفرت کرنا ہے کیونکہ بچے خدا کی خلاقیت کی کھلی نشانی ہیں اور بقول ٹیگور اس بات کا اعلان کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا! 

عہد طفلی میں بچہ بے بس اور اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے ۔ لیکن جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو اس کے برعکس والدین بچوں کے محتاج ہو جاتے ہیں ۔ بہت سے والدین کیلئے ضعیفی میں یہ خیال بڑے اطمینان اور سکون کا باعث ہوتا ہے کہ ان کی اولاد ان کی قربانیوں کا قرضہ چکا نے کیلئے ہر وقت آمادہ ہے حالانکہ وہ خود بچے والے ہوتے ہیں لیکن ایسے جوڑے جن کے بچے نہ ہوں اس خوشی سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں اور ان کا بڑھاپا اکیلے پن اور بے کسی کے عالم میں گذرتا ہے اور انسان کیلئے تنہائی کا احساس بڑا ہی جان لیوا ہوتا ہے ۔ اس لئے شادی شدہ جوڑوں کیلئے بہترین مشورہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ بچے پیدا کریں اور نسل انسانی کا سلسلہ اس وقت تک قائم رکھیں جب تک کہ قدرت خود اس سلسلے کو منقطع نہ کر دے ۔ موٹر کار، ٹیلی ویژن اور اسی قبیل کی دوسری آسائشی چیزیں بہت جلد اپنی دلکشی کھو بیٹھتی ہیں یا ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں لیکن بچے محبت کی یادگار ہوتے ہیں ۔ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہوتے ہیں ۔ وہ مکان کو گھر بنا دیتے ہیں اور وہ اپنے معصوم قہقہوں سے زندگی میں ایسے نغمے بکھیرتے ہیں جو آخری سانس تک گونجتے رہتے ہیں ۔ 

شادی کا ایک مقصد افزائش نسل ہے ۔ اسی لئے اس کے جنسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ بعض مرتبہ نئے جوڑے اپنی کم عقلی، کوتاہ نظری اور نا تجربہ کاری کے باعث جنسی زندگی میں ناکام ہوتے دیکھے گئے ہیں جس کی وجہہ سے وہ شادی کی نعمتوں سے صحیح طورپر لطف اندوز نہیں ہو سکتے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وقت سے پہلے ہی ان میں ناچاقی شروع ہو جاتی ہے اور پیار و محبت کے جو رنگین خواب دونوں نے دیکھنے شروع کئے تھے وہ درمیان ہی میں ٹوٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں یہ محسوس کرتے ہیں کہ جیسے انہیں دھوکہ ہوا ہو یا انہیں ٹھگ لیا گیا ہو۔ ان غلط فہیموں کے ازالہ کیلئے جنسی تربیت کی سخت ضرورت ہے ۔ 

No comments:

Post a Comment