مرد کا عضو ِتناسل لچکدار نسوں سے بنا ہوا ہوتا ہے اس لیے مباشرت کے وقت اس کے خلیوں میں خون بھر جانے سے موٹا اور لمبا ہو جاتا ہے ۔ جنسی ملاپ کے وقت مختلف مردوں میں ذکر کی لمبائی مختلف ہوتی ہے ۔ عام طور پر ایستادگی کی حالت میں یہ چار سے چھ انچ تک لمبا ہوتا ہے ۔۔۔ لیکن اگر کسی مرد کا عضوِ تناسل ایستادگی کے وقت چار انچ سے چھوٹا ہو تو اسے احساس کمتری کا شکار نہیں ہو جانا چاہیے ۔ ذکر کے لانبے ہونے کی کوئی اہمیت نہیں ۔ سختی اصل چیز ہے بلکہ وہی جنسی ملاپ کی جان ہے !
عضوِ تناسل کی کوتاہی ازدواجی زندگی میں کبھی رخنے نہیں ڈال سکتی ۔ اگر بہت زیادہ فرق ہے تو جنسی ملاپ کے مروجہ طریقوں سے ہٹ کر چند مخصوص طریقوں سے ملاپ کرنا چاہیے ۔ اگر عضو کی لمبائی بہت زیادہ ہے تو پہلو بہ پہلو لیٹنے سے زیادہ دخول نہ ہوگا ۔ اگر عضو بہت چھوٹا ہے تو رفیقہء حیات ۔۔۔ کے کولھوں کے نیچے تکیہ رکھنے سے دخول زیادہ گہرا ہوگا ۔ بہرحال یہ آپس ہی میں طے کرنے کی بات ہے کہ کون سا طریقہ زیادہ تسکین کا باعث بنتا ہے ۔
جب تک مرد کی منی کے جراثیم اور عورت کے پختہ بیضہ کا ملاپ نہیں ہوتا بچے کی پیدائش ممکن نہیں ۔ منی میں کئی گِلٹیوں کے ملے جلے لعاب کے ساتھ جراثیم ہوتے ہیں جن کی حرکت کی وجہ سے منی کے اخراج کے وقت مرد کو خاص لطف آتا ہے ۔ جس کے آگے دنیا کے سارے مزے ہیج ہیں ! مباشرت میں انزال کے وقت جو منی نکلتی ہے اس میں جراثیم کی تعداد کئی لاکھ ہوتی ہے جبکہ عورت کے بیضہ سے مل کر بچہ بنانے کا کام صرف ایک جرثومہ کرتا ہے ۔ باقی جراثیم آخر خود بخود ختم ہوجاتے ہیں ۔ ایک صحت مند مرد کی منی کا رنگ چاول کی کانجی سے مشابہ یعنی قدرے زردی مائل سفید ہوتا ہے اور منی گوند کی مانند گاڑھی چپچپی اور لیس دار ہوتی ہے ۔
بلوغت کے ساتھ ہی دونوں خصیئے لاکھوں کی تعداد میں منی کے جراثیم بنانے لگتے ہیں ۔ اگر فطری جنسی ملاپ کے ذریعہ یہ باہر نہیں نکل پاتی تو کچھ کچھ وقفہ کے بعد نیند کی حالت میں خوابوں کے سہارے یہ اپنا سارا راستہ پیدا کر لیتے ہیں کیونکہ ان کی زیادتی کے تناؤ کو کم کرنے کے لیے قدرت نے یہی انتظام کر رکھا ہے ۔ جس زمانے میں جنسی جذبات بھڑکنے کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو ان کی پیدائش میں زیادتی ہو جاتی ہے اور اسی زمانہ میں نیند کی حالت میں اس کا اخراج بھی جلدی جلدی ہونے لگتا ہے ۔
جب تک انسان کو اپنی جسمانی ساخت کا علم نہیں تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ منی خون کا جوہر ہوتی ہے ۔ اس لیے اس کی حفاظت پر غیر معمولی زور دیا جاتا تھا ۔۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صحت کے اعتبار سے منی کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔ اس کی کافی اہمیت ہے لیکن اتنی نہیں کہ ایک قطرے کا ضائع ہونا موت اور ایک قطرے کی حفاظت زندگی ہے ۔ احتلام یا مباشرت کی شکل میں منی کا جسم سے خارج ہونا بالکل فطری اور صحت مند عمل ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کثرت جماع یقیناً صحت کو متاثر کرے گی ۔ گنا اگر میٹھا ہو تو جڑ سے تو نہیں کھایا جاسکتا! اعتدال میں سلامتی ہے ۔
عورت اور مرد کے اعضائے تولید سے پوری طرح واقفیت اس لیے ضروری ہے کہ یہ اعضاء ہی ازدواجی زندگی میں محبت کے اظہار کا جسمانی اور بنیادی ذریعہ ہیں ۔ ان کی واقفیت ہی سے زندگی میں شوہر اور بیوی کے درمیان محبت کا دروازہ کھلتا ہے ، آئیے اب ہم ذرا عورت کے اعضائے تناسل پر ایک غائرانہ نظر ڈالیں۔۔۔
قدرت نے عورت کے اعضائے تولید کی ساخت کچھ ایسی دلچسپ اور پیچیدہ رکھی ہے کہ جن کو دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے !عورت اور مرد کے جنسی اعضاء میں نمایاں فرق یہ ہے کہ مرد کے جنسی اعضاء جسم کے بیرونی حصے میں ہوتے ہیں جبکہ عورت کے یہ اعضاء زیادہ تر جسم کے اندرونی حصے میں ہوتے ہیں اور یہ شاید اس لیے کہ عورت کو حاملہ بن کر اپنے اندر بچے کی پرورش کرنی ہوتی ہے اور اس سلسلے میں مرد جو دیتا ہے عورت اسے اپنے اندر سمو کر رکھتی ہے ۔ مرد کے اعضائے تولید لمبے اور ابھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس عورت کے اعضاء گہرے اور گڑھے کی شکل کے ہوتے ہیں ۔ یعنی عورت اور مرد کے اعضاء تولید تالے اور چابی کی طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک دوسرے کو مکمل بناتے ہیں ۔
عورت کے اعضائے تناسل کے دو حصے ہوتے ہیں ۔۔۔ ایک حصہ تو وہ ہے جو ایک دراڑ کی شکل کا ہوتا ہے ۔جس کو انسان دیکھ سکتا ہے ۔ یہ بلی کے منہ سے مشابہ ہوتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بلی کا منہ آڑا ہوتا ہے اور عورت کی شرم گاہ کی شکل کھڑی ہوتی ہے ! عورت کے باہر کے حصے میں دو بڑے لب دو چھوٹے لب ، فرج کے لب، فرج کا دانہ ، پیشاب کا سوراخ اور پردۂ بکارت ہوتا ہے ۔
ہر مکان کی دہلیز اونچی ہوتی ہے ۔ اسی طرح مرد کی قضیب کے آشیانے کی دہلیز بھی قدرے اونچی ہوتی ہے ۔ چنانچہ عورت کی ناف کے نیچے پیڑو کی ہڈی کے سامنے ، قدرے اوپر دو رانوں کے بیچ جو اُبھرا ہو احصہ ہے وہ مرد کے آلہء تناسل کا مسکن ہے ۔ اسی لیے پیکر نسائیت کے پوشیدہ حصے کی پردہ داری کے لیے اس بلند مسکن پر بال اگتے ہیں ۔ یہ مقام اس لیے بھی نسبتاً اُبھرا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نیچے چربی ہوتی ہے ۔
بلوغت کے ساتھ ہی نہ صرف مرد بلکہ عورت کے اعضائے تناسل کے اوپری حصے پر بھی ریشم جیسے ملائم بال اُگتے ہیں جو زعفران سے بہت مشابہ ہوتے ہیں۔
مرد کے آلہء تناسل کی پناہ گاہ یعنی فرج کے دو بڑے لب ہوتے ہیں جنھیں قدرت نے اندر کے نازک اعضاء کی حفاظت کے لیے بنایا ہے ۔ کنواری لڑکیوں کے یہ دو لب اکثر آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن شادی شدہ عورت میں یہ لب قدرے کشادہ اور کھلے ہوتے ہیں ۔ یہ دولب اندرونی اعضاء کے لیے گویا پھاٹک کا کام دیتے ہیں ۔ جس طرح پنکھڑیوں کے اندر کلی کی خوشبو رہتی ہے ، اسی طرح ان دونوں بڑے لبوں کے درمیان گوہر عصمت پوشیدہ رہتا ہے ۔ بڑے لبوں کی جلد اور رنگ عام جسم کی جلد اور رنگ جیسا ہی ہوتا ہے ۔
بڑے لبوں کے اندر دو ارغوانی رنگ کے چھوٹے چھوٹے لب ہوتے ہیں مباشرت کے وقت ان دونوں لبوں میں سختی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ گُلکوں کے کنارے بہت نازک اور حساس ہوتے ہیں ۔۔ یہ ریشم جیسی جھلی سے بنے ہوتے ہیں اور ان کا رنگ گلابی ہوتا ہے ۔ بڑے لبوں کو ہٹا کر دیکھا جائے تو یہ چھوٹے لب دکھائی دیتے ہیں ۔
بچہ پیدا ہونے کے بعد یہ دونوں لب کافی کھل جاتے ہیں ۔ ان دو گلابی قدرتی پنکھڑیوں کے بالائی حصے میں جہاں دونوں چھوٹے لب ملتے ہیں پیشاب کے سوراخ سے ایک انچ اوپر کی طرف مٹر کے دانہ کے برابر بیضوی شکل کا ایک چھوٹا سا ابھرا ہو اعضو ہوتا ہے جس کا اصطلاحی نام تو "بظر [clitoris]" ہے لیکن عام لفظوں میں "دانہ " کہتے ہیں ۔
دانہ عورت کے تما م جنسی اعضاء میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ یہ عورتوں کو جنس کا احساس دلاتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دانہ عورت کی شہوت کا خزانہ ہے ۔ جنسی بیداری یا ہیجان کی حالت میں اسے چُھونا گویا بجلی کا بٹن دبانے کے برابر ہے ۔ کیونکہ اس کے چھونے سے عورت کے سارے بدن میں برقی رو سی دوڑ جاتی ہے !
ماہر اجسام نے اسے مرد کے عضو تناسل ہی کا دوسرا روپ تسلیم کیا ہے ۔ کیونکہ اس کی ساخت بھی مرد کے عضوِ تناسل کی طرح اسفنج کے مانند خلیوں سے ہوتی ہے اور جنسی اشتعال کے وقت یہ مرد کے عضوِتناسل کی طرح سخت ہوجاتا ہے اور پھیل کر بڑا ہوجاتا ہے ۔ جس وقت عورت کی دبی ہوئی تمنائیں باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں تو اس دانہ میں سختی آجاتی ہے ، لیکن یہ چھوٹا عضو ، مرد کے ذکر کی طرح اپنے جوش کا اظہار نہیں کرسکتا ۔
بطنِ مادری میں رحم کے اندر جب بچہ بننے لگتا ہے تو اسی دوران میں اعضائے تولید کی جگہ ایک بہت چھوٹا ابھار سا ہوتا ہے جو لڑکی اور لڑکے دونوں میں یکساں اور برابر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے ایک عرصہ تک رحم میں بچے کے جنس کا اندازہ نہیں ہوسکتا ۔ بعد میں یہی ابھار اگر لڑکا ہوتو ذکر بن جاتا ہے اور لڑکی ہو تو ذرا سا بڑھ کر دانہ بن جاتا ہے ۔ بعض عورتوں کا دانہ بڑا بھی ہوتا ہے اور اشتعال کی حالت میں بڑھ کر ایک سے دیڑھ انچ تک ہوجاتا ہے ۔ تما م عورتوں میں اس کا طول یکساں نہیں ہوتا ۔ بعض عورتوں کا یہ دانہ اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ وہ بڑے لبوں سے باہر نکلا رہتا ہے !
دانہ سے تقریباً ایک انچ نیچے کی طرف ایک باریک سوراخ ہوتا ہے جہاں سے عورت کا پیشاب خارج ہوتا ہے ۔ پیشاب کے سوراخ سے کچھ نیچے ایک سوراخ نما نالی ہوتی ہے جسے "فرج" کہتے ہیں ۔ یہ مرد کے "ہتھیار" کے لیے نیام کا کام دیتی ہے۔
عضوِ تناسل کی کوتاہی ازدواجی زندگی میں کبھی رخنے نہیں ڈال سکتی ۔ اگر بہت زیادہ فرق ہے تو جنسی ملاپ کے مروجہ طریقوں سے ہٹ کر چند مخصوص طریقوں سے ملاپ کرنا چاہیے ۔ اگر عضو کی لمبائی بہت زیادہ ہے تو پہلو بہ پہلو لیٹنے سے زیادہ دخول نہ ہوگا ۔ اگر عضو بہت چھوٹا ہے تو رفیقہء حیات ۔۔۔ کے کولھوں کے نیچے تکیہ رکھنے سے دخول زیادہ گہرا ہوگا ۔ بہرحال یہ آپس ہی میں طے کرنے کی بات ہے کہ کون سا طریقہ زیادہ تسکین کا باعث بنتا ہے ۔
جب تک مرد کی منی کے جراثیم اور عورت کے پختہ بیضہ کا ملاپ نہیں ہوتا بچے کی پیدائش ممکن نہیں ۔ منی میں کئی گِلٹیوں کے ملے جلے لعاب کے ساتھ جراثیم ہوتے ہیں جن کی حرکت کی وجہ سے منی کے اخراج کے وقت مرد کو خاص لطف آتا ہے ۔ جس کے آگے دنیا کے سارے مزے ہیج ہیں ! مباشرت میں انزال کے وقت جو منی نکلتی ہے اس میں جراثیم کی تعداد کئی لاکھ ہوتی ہے جبکہ عورت کے بیضہ سے مل کر بچہ بنانے کا کام صرف ایک جرثومہ کرتا ہے ۔ باقی جراثیم آخر خود بخود ختم ہوجاتے ہیں ۔ ایک صحت مند مرد کی منی کا رنگ چاول کی کانجی سے مشابہ یعنی قدرے زردی مائل سفید ہوتا ہے اور منی گوند کی مانند گاڑھی چپچپی اور لیس دار ہوتی ہے ۔
بلوغت کے ساتھ ہی دونوں خصیئے لاکھوں کی تعداد میں منی کے جراثیم بنانے لگتے ہیں ۔ اگر فطری جنسی ملاپ کے ذریعہ یہ باہر نہیں نکل پاتی تو کچھ کچھ وقفہ کے بعد نیند کی حالت میں خوابوں کے سہارے یہ اپنا سارا راستہ پیدا کر لیتے ہیں کیونکہ ان کی زیادتی کے تناؤ کو کم کرنے کے لیے قدرت نے یہی انتظام کر رکھا ہے ۔ جس زمانے میں جنسی جذبات بھڑکنے کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے تو ان کی پیدائش میں زیادتی ہو جاتی ہے اور اسی زمانہ میں نیند کی حالت میں اس کا اخراج بھی جلدی جلدی ہونے لگتا ہے ۔
جب تک انسان کو اپنی جسمانی ساخت کا علم نہیں تھا وہ یہ سمجھتا تھا کہ منی خون کا جوہر ہوتی ہے ۔ اس لیے اس کی حفاظت پر غیر معمولی زور دیا جاتا تھا ۔۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ صحت کے اعتبار سے منی کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔ اس کی کافی اہمیت ہے لیکن اتنی نہیں کہ ایک قطرے کا ضائع ہونا موت اور ایک قطرے کی حفاظت زندگی ہے ۔ احتلام یا مباشرت کی شکل میں منی کا جسم سے خارج ہونا بالکل فطری اور صحت مند عمل ہے ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کثرت جماع یقیناً صحت کو متاثر کرے گی ۔ گنا اگر میٹھا ہو تو جڑ سے تو نہیں کھایا جاسکتا! اعتدال میں سلامتی ہے ۔
عورت اور مرد کے اعضائے تولید سے پوری طرح واقفیت اس لیے ضروری ہے کہ یہ اعضاء ہی ازدواجی زندگی میں محبت کے اظہار کا جسمانی اور بنیادی ذریعہ ہیں ۔ ان کی واقفیت ہی سے زندگی میں شوہر اور بیوی کے درمیان محبت کا دروازہ کھلتا ہے ، آئیے اب ہم ذرا عورت کے اعضائے تناسل پر ایک غائرانہ نظر ڈالیں۔۔۔
قدرت نے عورت کے اعضائے تولید کی ساخت کچھ ایسی دلچسپ اور پیچیدہ رکھی ہے کہ جن کو دیکھ کر عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے !عورت اور مرد کے جنسی اعضاء میں نمایاں فرق یہ ہے کہ مرد کے جنسی اعضاء جسم کے بیرونی حصے میں ہوتے ہیں جبکہ عورت کے یہ اعضاء زیادہ تر جسم کے اندرونی حصے میں ہوتے ہیں اور یہ شاید اس لیے کہ عورت کو حاملہ بن کر اپنے اندر بچے کی پرورش کرنی ہوتی ہے اور اس سلسلے میں مرد جو دیتا ہے عورت اسے اپنے اندر سمو کر رکھتی ہے ۔ مرد کے اعضائے تولید لمبے اور ابھرے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس کے برعکس عورت کے اعضاء گہرے اور گڑھے کی شکل کے ہوتے ہیں ۔ یعنی عورت اور مرد کے اعضاء تولید تالے اور چابی کی طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے میں جذب ہو کر ایک دوسرے کو مکمل بناتے ہیں ۔
عورت کے اعضائے تناسل کے دو حصے ہوتے ہیں ۔۔۔ ایک حصہ تو وہ ہے جو ایک دراڑ کی شکل کا ہوتا ہے ۔جس کو انسان دیکھ سکتا ہے ۔ یہ بلی کے منہ سے مشابہ ہوتا ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بلی کا منہ آڑا ہوتا ہے اور عورت کی شرم گاہ کی شکل کھڑی ہوتی ہے ! عورت کے باہر کے حصے میں دو بڑے لب دو چھوٹے لب ، فرج کے لب، فرج کا دانہ ، پیشاب کا سوراخ اور پردۂ بکارت ہوتا ہے ۔
ہر مکان کی دہلیز اونچی ہوتی ہے ۔ اسی طرح مرد کی قضیب کے آشیانے کی دہلیز بھی قدرے اونچی ہوتی ہے ۔ چنانچہ عورت کی ناف کے نیچے پیڑو کی ہڈی کے سامنے ، قدرے اوپر دو رانوں کے بیچ جو اُبھرا ہو احصہ ہے وہ مرد کے آلہء تناسل کا مسکن ہے ۔ اسی لیے پیکر نسائیت کے پوشیدہ حصے کی پردہ داری کے لیے اس بلند مسکن پر بال اگتے ہیں ۔ یہ مقام اس لیے بھی نسبتاً اُبھرا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نیچے چربی ہوتی ہے ۔
بلوغت کے ساتھ ہی نہ صرف مرد بلکہ عورت کے اعضائے تناسل کے اوپری حصے پر بھی ریشم جیسے ملائم بال اُگتے ہیں جو زعفران سے بہت مشابہ ہوتے ہیں۔
مرد کے آلہء تناسل کی پناہ گاہ یعنی فرج کے دو بڑے لب ہوتے ہیں جنھیں قدرت نے اندر کے نازک اعضاء کی حفاظت کے لیے بنایا ہے ۔ کنواری لڑکیوں کے یہ دو لب اکثر آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن شادی شدہ عورت میں یہ لب قدرے کشادہ اور کھلے ہوتے ہیں ۔ یہ دولب اندرونی اعضاء کے لیے گویا پھاٹک کا کام دیتے ہیں ۔ جس طرح پنکھڑیوں کے اندر کلی کی خوشبو رہتی ہے ، اسی طرح ان دونوں بڑے لبوں کے درمیان گوہر عصمت پوشیدہ رہتا ہے ۔ بڑے لبوں کی جلد اور رنگ عام جسم کی جلد اور رنگ جیسا ہی ہوتا ہے ۔
بڑے لبوں کے اندر دو ارغوانی رنگ کے چھوٹے چھوٹے لب ہوتے ہیں مباشرت کے وقت ان دونوں لبوں میں سختی پیدا ہوجاتی ہے ۔ یہ گُلکوں کے کنارے بہت نازک اور حساس ہوتے ہیں ۔۔ یہ ریشم جیسی جھلی سے بنے ہوتے ہیں اور ان کا رنگ گلابی ہوتا ہے ۔ بڑے لبوں کو ہٹا کر دیکھا جائے تو یہ چھوٹے لب دکھائی دیتے ہیں ۔
بچہ پیدا ہونے کے بعد یہ دونوں لب کافی کھل جاتے ہیں ۔ ان دو گلابی قدرتی پنکھڑیوں کے بالائی حصے میں جہاں دونوں چھوٹے لب ملتے ہیں پیشاب کے سوراخ سے ایک انچ اوپر کی طرف مٹر کے دانہ کے برابر بیضوی شکل کا ایک چھوٹا سا ابھرا ہو اعضو ہوتا ہے جس کا اصطلاحی نام تو "بظر [clitoris]" ہے لیکن عام لفظوں میں "دانہ " کہتے ہیں ۔
دانہ عورت کے تما م جنسی اعضاء میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے ۔ کیونکہ یہ عورتوں کو جنس کا احساس دلاتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دانہ عورت کی شہوت کا خزانہ ہے ۔ جنسی بیداری یا ہیجان کی حالت میں اسے چُھونا گویا بجلی کا بٹن دبانے کے برابر ہے ۔ کیونکہ اس کے چھونے سے عورت کے سارے بدن میں برقی رو سی دوڑ جاتی ہے !
ماہر اجسام نے اسے مرد کے عضو تناسل ہی کا دوسرا روپ تسلیم کیا ہے ۔ کیونکہ اس کی ساخت بھی مرد کے عضوِ تناسل کی طرح اسفنج کے مانند خلیوں سے ہوتی ہے اور جنسی اشتعال کے وقت یہ مرد کے عضوِتناسل کی طرح سخت ہوجاتا ہے اور پھیل کر بڑا ہوجاتا ہے ۔ جس وقت عورت کی دبی ہوئی تمنائیں باہر نکلنے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں تو اس دانہ میں سختی آجاتی ہے ، لیکن یہ چھوٹا عضو ، مرد کے ذکر کی طرح اپنے جوش کا اظہار نہیں کرسکتا ۔
بطنِ مادری میں رحم کے اندر جب بچہ بننے لگتا ہے تو اسی دوران میں اعضائے تولید کی جگہ ایک بہت چھوٹا ابھار سا ہوتا ہے جو لڑکی اور لڑکے دونوں میں یکساں اور برابر ہوتا ہے ۔ اسی وجہ سے ایک عرصہ تک رحم میں بچے کے جنس کا اندازہ نہیں ہوسکتا ۔ بعد میں یہی ابھار اگر لڑکا ہوتو ذکر بن جاتا ہے اور لڑکی ہو تو ذرا سا بڑھ کر دانہ بن جاتا ہے ۔ بعض عورتوں کا دانہ بڑا بھی ہوتا ہے اور اشتعال کی حالت میں بڑھ کر ایک سے دیڑھ انچ تک ہوجاتا ہے ۔ تما م عورتوں میں اس کا طول یکساں نہیں ہوتا ۔ بعض عورتوں کا یہ دانہ اتنا بڑا ہوجاتا ہے کہ وہ بڑے لبوں سے باہر نکلا رہتا ہے !
دانہ سے تقریباً ایک انچ نیچے کی طرف ایک باریک سوراخ ہوتا ہے جہاں سے عورت کا پیشاب خارج ہوتا ہے ۔ پیشاب کے سوراخ سے کچھ نیچے ایک سوراخ نما نالی ہوتی ہے جسے "فرج" کہتے ہیں ۔ یہ مرد کے "ہتھیار" کے لیے نیام کا کام دیتی ہے۔
پیشاب کے سوراخ سے کچھ نیچے ایک سوراخ نما نالی ہوتی ہے جسے "فرج" کہتے ہیں ۔ یہ مرد کے "ہتھیار" کے لیے نیام کا کام دیتی ہے۔
فرج کے بھی دو لب ہوتے ہیں جن کے اندرونی جانب گلابی رنگ کا ایک باریک جھلی کا پردہ ہوتا ہے ۔ جیسے "پردہ بکارت" کہتے ہیں ۔ یہ پردہ گویا خزانہء حسن کا چوکیدار ہے ۔ کیونکہ وہ کسی چیز کو فرج کے اندر داخل ہونے سے روکتا ہے ۔ اس پردے کے درمیان یک بالکل باریک سا سوراخ ہوتا ہے جس کے ذریعہ ماہورای کاخون باہر نکل سکتا ہے ۔ اس پردے کی موجودگی اس بات کا ضرور ثبوت ہے کہ اس کے ساتھ مباشرت نہیں کی گئی لیکن یہ پردہ اس قدر نازک ہوتا ہے کہ اکثر کھیل کود یا بھاگ دوڑ ہی میں پھٹ جاتا ہے ۔ اس لیے موجودہ دور میں اس پردے کی غیر موجودگی کا یہ مطلب نہیں کہ عورت با عصمت نہیں ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ سہاگ رات یا پہلی مباشرت تک یہ پردہ برقرار رہے ۔ جن عورتوں کا یہ پردہ برقرار رہتا ہے پہلی مباشرت میں اعضاء تناسل داخل کرنے سے پھٹ جاتا ہے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے کہ بعض مرتبہ بچپن ہی میں کھیل کود کی وجہ سے یہ پردہ پھٹ جاتا ہے ۔ کبھی کبھی تو عورتوں میں یہ پیدائشی طور پر مفقود ہوتاہے ۔
فرج کی نالی اصل میں عیش نشاط کی دل فریب وادی ہے ۔ قدرت نے اس نالی کے بالائی حصہ کو تنگ بنایا ہے لیکن آگے بتدریج کشادہ ہوتی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ آخر میں اس کا منہ اس قدر کشادہ ہوگیا ہے کہ رحم کی گردن اس کے اندر آجاتی ہے !
فرج عورت کے اعضائے تناسل میں ایک اہم ترین حصہ ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتو جماع ہی نہ ہو سکے اور افزائش کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہے ۔ اس لیے اس کی ساخت بھی مخصوص انداز میں ہوتی ہے ،پیاز کے چھلکوں کی طرح ، فرج کی نالی کی دیوروں میں پرت ہوتے ہیں ۔ فرج کی دیواروں سے ایک کھٹار رس نکلتا رہتا ہے جس سے اس نالی کی حفاظت ہوتی ہے ۔ اس رس کی وجہ سے باہر سے کوئی بھی مرض کے جراثیم فرج کی نالی پر حملہ نہیں کرپاتے ۔ اس کھٹے مادے میں مرد کی منی کے جراثیم بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔
لیکن اس سیال مادےکا اثر فرج کے اگلے نصف حصہ پر ہی ہوتا ہے ۔پچھلے نصف حصے میں رحم کے منہ سے ایک دوسرا نمکین مادہ رِستا رہتا ہے جس میں منی کے جراثیم محفوظ رہتے ہیں ۔ فرج کی نالی کی دیواروں کی آخری پرت میں ایک لعب دار جھلی ہوتی ہے ، جس سے مباشرت کے وقت رطوبتیں خارج ہوتی ہیں ، جس سے مرد کے آلۂ تناسل کی آمدو رفت میں آسانی ہوجاتی ہے ۔
جنسی تحریک کی حالت میں ان رطوبتوں میں زیادتی ہوجاتی ہے ۔ دراصل یہ رطوبتیں جنسی ملاپ میں بڑی مدد دیتی ہیں کیوں کہ ان کی چکناہٹ اور تری سے عورت ،مرد کے عضوِ تناسل کے دخول کی تکلیف برداشت کرلیتی ہے ۔ کسی خرابی کی وجہ سے جب یہ رطوبتیں ختم ہوجاتی ہیں تو دخول میں تکلیف ہوتی ہے اس لیے جنسی ملاپ سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ رطوبتیں بہتی ہوئی فرج کے باہر ی سرے تک آجائیں۔ اس میں کچھ وقت لگتا ہے ۔ جب ہی تو ماہرین کا مشورہ ہے کہ جنسی ملاپ کے عملی اقدام سے پہلے ہی پوری طرح جنسی تحریک کو بیدار کرنا چاہیے۔
فرج کی لمبائی اور گہرائی عام طور پر ڈھائی انچ سے چار انچ تک ہوتی ہے ۔۔لیکن بعض قوموں اور ملکوں کی عورتوں میں یہ لمبائی 6 انچ تک بھی پائی جاتی ہے ! فرج کے پٹھوں کے لچکیلے پن کی وجہ سے فرج میں مرد کے عضوِتناسل سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے ۔ مباشرت کے خاص طریقے اپنانے سے فرج کی نالی کی لمبائی کسی قدر گھٹائی بڑھائی جاسکتی ہے ۔ بچہ کی پیدائش کے وقت فرج غیر معمولی طور پر پھیل کر بچے کو جنم دیتی ہے ۔۔کیونکہ فرج کے راستہ ہی بچہ راستہ طے کر کے رحم مادری سے عالم وجود میں آتا ہے لیکن آخر یہ تنگ وادی اس قدر کشادہ کس طرح ہوجاتی ہے ؟ قدرت نے اس کی ساخت ہی کچھ اس طرح بنائی ہے کہ یہ ضرورت کے وقت بہت زیادہ کشادہ ہوجائے ۔ فرج کے اندرونی حصے میں اس طرح کی بہت سی چنٹیں یا شکنیں ہوتی ہیں جیسے کہ کسی بٹوے میں ہوتی ہیں ۔ اگر فرج کے اندورنی حصے پر یہ چنٹیں نہ ہوتیں تو بچے کی پیدائش کے وقت وہ اس قدر کشادہ ہونے کے بجائے شق ہوجاتی اور آئندہ عورت افزائش نسل کے کام ہی کی نہ رہتی ۔
یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ زجگی کے چالیس دن بعد فرج اپنی اصلی حالت پرآجاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے پانی میں ایک بڑا سا پتھر مارو تو پانی پھیل کر پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے ۔ اگر فرج کی ساخت ایسی نہ ہوتی کہ وہ وضع حمل کے بعد اپنی اصلی حالت پر نہ آسکتی تو یقین مانئیے کہ مردوں کو ہر زچگی کے بعد عورت بدلنا پڑ جاتی !
عیش و مسرت کی وادی "فرج" جس عضو سے ملحق ہوتی ہے وہ انسان کا پہلا گہوارہ ہے ۔ ہستی کے دائرہ میں آکر انسان سب سے پہلے جس جگہ نشوونما پاتا ہے اسے رحم کہتے ہیں ۔ اسی لیے یہ عورت کے اعضائے تولید کا سردار سمجھا جاتا ہے ۔ رحم اعضائے نسوانی کا اہم ترین حصہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نازک ترین بھی ۔ اس کی گردن فرج کے اندر ہوتی ہے اور اگر اس میں ذرا سی ٹھیس لگ جائے تو اس کی گردن دوسری جانب جھک جاتی ہے ۔ جس کو عام طور پر رحم کا الٹ جانا کہتے ہیں ، رحم کے اس طرح الٹ جانے سے عورتوں کو بعض شدید ترین امراض میں مبتلا ہونا پڑتا ہے ۔ خرابی ء رحم کا اثر براہ راست عورت کے دل و دماغ پر پڑتا ہے اور خرابیء رحم کی وجہ سے بعض عورتیں پاگل ہوجاتی ہیں یا انھیں قسم قسم کے دورے پڑنے لگتے ہیں ۔
عورت کے اعضائے تولید میں رحم کو ایک خاص درجہ حاصل ہے کیونکہ اس میں بچہ پرورش پاتا ہے ۔ رحم اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے اور اس کی شکل ناشپاتی سے مشابہ ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کا بالائی حصہ کشادہ ہوتا ہے اور نچلا حصہ لمبا اور تنگ ہوتا ہے ۔ رحم کا جو حصہ فرج کی نالی کے اندر ہوتا ہے اس کو رحم کا منہ کہتے ہیں ۔ جس کے دو لب ہوتے ہیں ، جو صدفِ تشنہ کی طرح قطرہء نیساں کے انتظار میں کھلے رہتے ہیں اور اس وقت بند ہوتے ہیں جبکہ قطرہء نیساں تو ہر یک دانہ بننے کے لیے ان کے اندر داخل ہوجائے ۔ جنسی فعل میں مرد کا عضوِ تناسل رحم کے منہ سے ٹکراتا ہے ۔ جس سے عورت کافی لطف اندوز ہوتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ ہلکے ہلکے ٹکرائے ۔ رحم لچکیلے مہین تاروں سے بنا ہوتا ہے اور اس کے پٹھوں میں پھیلنے اور سکڑنے کی عجیب صلاحیت ہوتی ہے ۔ عام حالت میں رحم ، تین انچ لمبا اور دو انچ موٹا ہوتا ہے لیکن حمل کے دوران یہ پھیل کر نو سے بارہ انچ ہوجاتا ہے ۔ بعض اوقات جب رحم کو قائم رکھنے والے بندھن ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو یہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے ۔ ایسی حالت میں عورت کو عموماً مباشرت میں تکلیف ہوتی ہے ۔
جس طرح پرندوں میں نر اور مادہ کے جنسی ملاپ کے بعد مادہ انڈے دیتی ہے اور اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے بالکل اسی طرح انسان بھی عورت کے انڈے سے پیدا ہوتا ہے ! عورتوں کے رحم کے دائیں اور بائیں سرے ایک ایک نلی نکلتی ہے جو رحم میں آکر کھلتی ہے ۔ رحم کے دونوں جانب کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل کے کے دو غدود یا بیضہ دانیاں ہوتی ہیں ۔ ہر غدود میں ،جب کوئی لڑکی عالم شباب کی منزل میں پہنچے تو چھوٹے انڈے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان ہی انڈوں سے انسانی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ عورت کے جسم میں ان بیضہ دانیوں یا غدود کا کام ٹھیک وہی ہے جو مردوں کے فوطے جسم کے باہر ہوتے ہیں جبکہ عورت کی بیضہ دانی جسم کے کے اندر ہوتی ہے ۔ بیضہ دانیو ں یا غدودکاکام ٹھیک وہی ہے جو مردوں کے فوطے انجام دیتے ہیں ۔ لیکن مرد کے فوطے جسم کے باہر ہوتے ہیں ۔ جبکہ عورت کی بیضہ دانی جسم کے اندر ہوتی ہے ۔ بیضہ دانیوں کی شکل بادام کی طرح ہوتی ہے ۔ یہ رحم کے دونوں طرف تقریباً تین تین انچ کے فاصلہ پر ہوتی ہیں ۔ جس طرح مرد کے فوطوں میں بے شمار منی کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتوں کے ان غدودں میں جراثیم پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان میں باری باری ایک مہینے میں ایک ہی بیضہ پختہ ہوکر نکلتا ہے یعنی ایک مہینے میں بائیں غدود سے سے تو دوسرے مہینے ، دائیں غدود سے ۔ منی کے جراثیم اسی ایک بیضہ سے ملتے ہیں تو حمل قرارپاتا ہے ۔ بیضہ بنانے والے ان غدودوں کا دوسرا اہم کام زنانہ ہارمونس عورت کے جسم میں نسائیت پیدا کرتے ہیں ۔ ماہواری ان ہی ہارمونس کا نتیجہ ہے کہ زنانہ جسم کی نزاکت ، کشش ، حسن چھاتیوں کا ابھار اعضاء کا توازن و تناسب ، کولھوں کی ساخت ، آواز کی شیرینی اور مزاج کی نزاکت ، یہ سارے مخصوص زنانہ اوصاف ان ہی ہارمونس کی بدولت وجود میں آتے ہیں ۔
عورت کے رحم کے دائیں اور بائیں سروں پر ایک ایک بیضہ نالی نکلتی ہے بیضہ ان ہی نالیو ں کے راستہ سے ہوکر رحم میں پہنچتا ہے اور منی کے جراثیم کے ملنے کا مقام بھی یہی بیضہ نالیاں ہوتی ہیں ۔ دراصل ایک پختہ بیضہ ، نالی کا دو تہائی فاصلہ طے کرکے وہیں وہ منی کے جراثیم کا انتظار کرتا ہے ۔ اگر منی کے جراثیم سے اس کی مڈ بھیڑ ہوجائے تو حمل ٹھہر جاتا ہے اور بیضہ رحم کی دیوراوں سے چپک کر بڑھنے لگتا ہے اور اگر جراثیم اور بیضے کا ملاپ نہیں ہوتا تو وہ رحم میں نہیں ٹھہرتا بلکہ وہ حیض کے خون کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے ۔
فرج کے بھی دو لب ہوتے ہیں جن کے اندرونی جانب گلابی رنگ کا ایک باریک جھلی کا پردہ ہوتا ہے ۔ جیسے "پردہ بکارت" کہتے ہیں ۔ یہ پردہ گویا خزانہء حسن کا چوکیدار ہے ۔ کیونکہ وہ کسی چیز کو فرج کے اندر داخل ہونے سے روکتا ہے ۔ اس پردے کے درمیان یک بالکل باریک سا سوراخ ہوتا ہے جس کے ذریعہ ماہورای کاخون باہر نکل سکتا ہے ۔ اس پردے کی موجودگی اس بات کا ضرور ثبوت ہے کہ اس کے ساتھ مباشرت نہیں کی گئی لیکن یہ پردہ اس قدر نازک ہوتا ہے کہ اکثر کھیل کود یا بھاگ دوڑ ہی میں پھٹ جاتا ہے ۔ اس لیے موجودہ دور میں اس پردے کی غیر موجودگی کا یہ مطلب نہیں کہ عورت با عصمت نہیں ہے ۔ یہ کوئی ضروری نہیں کہ سہاگ رات یا پہلی مباشرت تک یہ پردہ برقرار رہے ۔ جن عورتوں کا یہ پردہ برقرار رہتا ہے پہلی مباشرت میں اعضاء تناسل داخل کرنے سے پھٹ جاتا ہے لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے ۔ جیسا کہ اس سے پہلے بتایا گیا ہے کہ بعض مرتبہ بچپن ہی میں کھیل کود کی وجہ سے یہ پردہ پھٹ جاتا ہے ۔ کبھی کبھی تو عورتوں میں یہ پیدائشی طور پر مفقود ہوتاہے ۔
فرج کی نالی اصل میں عیش نشاط کی دل فریب وادی ہے ۔ قدرت نے اس نالی کے بالائی حصہ کو تنگ بنایا ہے لیکن آگے بتدریج کشادہ ہوتی گئی ہے ۔ یہاں تک کہ آخر میں اس کا منہ اس قدر کشادہ ہوگیا ہے کہ رحم کی گردن اس کے اندر آجاتی ہے !
فرج عورت کے اعضائے تناسل میں ایک اہم ترین حصہ ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتو جماع ہی نہ ہو سکے اور افزائش کا کوئی ذریعہ باقی نہ رہے ۔ اس لیے اس کی ساخت بھی مخصوص انداز میں ہوتی ہے ،پیاز کے چھلکوں کی طرح ، فرج کی نالی کی دیوروں میں پرت ہوتے ہیں ۔ فرج کی دیواروں سے ایک کھٹار رس نکلتا رہتا ہے جس سے اس نالی کی حفاظت ہوتی ہے ۔ اس رس کی وجہ سے باہر سے کوئی بھی مرض کے جراثیم فرج کی نالی پر حملہ نہیں کرپاتے ۔ اس کھٹے مادے میں مرد کی منی کے جراثیم بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔
لیکن اس سیال مادےکا اثر فرج کے اگلے نصف حصہ پر ہی ہوتا ہے ۔پچھلے نصف حصے میں رحم کے منہ سے ایک دوسرا نمکین مادہ رِستا رہتا ہے جس میں منی کے جراثیم محفوظ رہتے ہیں ۔ فرج کی نالی کی دیواروں کی آخری پرت میں ایک لعب دار جھلی ہوتی ہے ، جس سے مباشرت کے وقت رطوبتیں خارج ہوتی ہیں ، جس سے مرد کے آلۂ تناسل کی آمدو رفت میں آسانی ہوجاتی ہے ۔
جنسی تحریک کی حالت میں ان رطوبتوں میں زیادتی ہوجاتی ہے ۔ دراصل یہ رطوبتیں جنسی ملاپ میں بڑی مدد دیتی ہیں کیوں کہ ان کی چکناہٹ اور تری سے عورت ،مرد کے عضوِ تناسل کے دخول کی تکلیف برداشت کرلیتی ہے ۔ کسی خرابی کی وجہ سے جب یہ رطوبتیں ختم ہوجاتی ہیں تو دخول میں تکلیف ہوتی ہے اس لیے جنسی ملاپ سے پہلے یہ ضروری ہے کہ یہ رطوبتیں بہتی ہوئی فرج کے باہر ی سرے تک آجائیں۔ اس میں کچھ وقت لگتا ہے ۔ جب ہی تو ماہرین کا مشورہ ہے کہ جنسی ملاپ کے عملی اقدام سے پہلے ہی پوری طرح جنسی تحریک کو بیدار کرنا چاہیے۔
فرج کی لمبائی اور گہرائی عام طور پر ڈھائی انچ سے چار انچ تک ہوتی ہے ۔۔لیکن بعض قوموں اور ملکوں کی عورتوں میں یہ لمبائی 6 انچ تک بھی پائی جاتی ہے ! فرج کے پٹھوں کے لچکیلے پن کی وجہ سے فرج میں مرد کے عضوِتناسل سے مطابقت پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے ۔ مباشرت کے خاص طریقے اپنانے سے فرج کی نالی کی لمبائی کسی قدر گھٹائی بڑھائی جاسکتی ہے ۔ بچہ کی پیدائش کے وقت فرج غیر معمولی طور پر پھیل کر بچے کو جنم دیتی ہے ۔۔کیونکہ فرج کے راستہ ہی بچہ راستہ طے کر کے رحم مادری سے عالم وجود میں آتا ہے لیکن آخر یہ تنگ وادی اس قدر کشادہ کس طرح ہوجاتی ہے ؟ قدرت نے اس کی ساخت ہی کچھ اس طرح بنائی ہے کہ یہ ضرورت کے وقت بہت زیادہ کشادہ ہوجائے ۔ فرج کے اندرونی حصے میں اس طرح کی بہت سی چنٹیں یا شکنیں ہوتی ہیں جیسے کہ کسی بٹوے میں ہوتی ہیں ۔ اگر فرج کے اندورنی حصے پر یہ چنٹیں نہ ہوتیں تو بچے کی پیدائش کے وقت وہ اس قدر کشادہ ہونے کے بجائے شق ہوجاتی اور آئندہ عورت افزائش نسل کے کام ہی کی نہ رہتی ۔
یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ زجگی کے چالیس دن بعد فرج اپنی اصلی حالت پرآجاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے پانی میں ایک بڑا سا پتھر مارو تو پانی پھیل کر پھر اپنی اصلی حالت پر آجاتا ہے ۔ اگر فرج کی ساخت ایسی نہ ہوتی کہ وہ وضع حمل کے بعد اپنی اصلی حالت پر نہ آسکتی تو یقین مانئیے کہ مردوں کو ہر زچگی کے بعد عورت بدلنا پڑ جاتی !
عیش و مسرت کی وادی "فرج" جس عضو سے ملحق ہوتی ہے وہ انسان کا پہلا گہوارہ ہے ۔ ہستی کے دائرہ میں آکر انسان سب سے پہلے جس جگہ نشوونما پاتا ہے اسے رحم کہتے ہیں ۔ اسی لیے یہ عورت کے اعضائے تولید کا سردار سمجھا جاتا ہے ۔ رحم اعضائے نسوانی کا اہم ترین حصہ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نازک ترین بھی ۔ اس کی گردن فرج کے اندر ہوتی ہے اور اگر اس میں ذرا سی ٹھیس لگ جائے تو اس کی گردن دوسری جانب جھک جاتی ہے ۔ جس کو عام طور پر رحم کا الٹ جانا کہتے ہیں ، رحم کے اس طرح الٹ جانے سے عورتوں کو بعض شدید ترین امراض میں مبتلا ہونا پڑتا ہے ۔ خرابی ء رحم کا اثر براہ راست عورت کے دل و دماغ پر پڑتا ہے اور خرابیء رحم کی وجہ سے بعض عورتیں پاگل ہوجاتی ہیں یا انھیں قسم قسم کے دورے پڑنے لگتے ہیں ۔
عورت کے اعضائے تولید میں رحم کو ایک خاص درجہ حاصل ہے کیونکہ اس میں بچہ پرورش پاتا ہے ۔ رحم اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے اور اس کی شکل ناشپاتی سے مشابہ ہوتی ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کا بالائی حصہ کشادہ ہوتا ہے اور نچلا حصہ لمبا اور تنگ ہوتا ہے ۔ رحم کا جو حصہ فرج کی نالی کے اندر ہوتا ہے اس کو رحم کا منہ کہتے ہیں ۔ جس کے دو لب ہوتے ہیں ، جو صدفِ تشنہ کی طرح قطرہء نیساں کے انتظار میں کھلے رہتے ہیں اور اس وقت بند ہوتے ہیں جبکہ قطرہء نیساں تو ہر یک دانہ بننے کے لیے ان کے اندر داخل ہوجائے ۔ جنسی فعل میں مرد کا عضوِ تناسل رحم کے منہ سے ٹکراتا ہے ۔ جس سے عورت کافی لطف اندوز ہوتی ہے ۔ بشرطیکہ وہ ہلکے ہلکے ٹکرائے ۔ رحم لچکیلے مہین تاروں سے بنا ہوتا ہے اور اس کے پٹھوں میں پھیلنے اور سکڑنے کی عجیب صلاحیت ہوتی ہے ۔ عام حالت میں رحم ، تین انچ لمبا اور دو انچ موٹا ہوتا ہے لیکن حمل کے دوران یہ پھیل کر نو سے بارہ انچ ہوجاتا ہے ۔ بعض اوقات جب رحم کو قائم رکھنے والے بندھن ڈھیلے پڑ جاتے ہیں تو یہ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے ۔ ایسی حالت میں عورت کو عموماً مباشرت میں تکلیف ہوتی ہے ۔
جس طرح پرندوں میں نر اور مادہ کے جنسی ملاپ کے بعد مادہ انڈے دیتی ہے اور اس سے بچہ پیدا ہوتا ہے بالکل اسی طرح انسان بھی عورت کے انڈے سے پیدا ہوتا ہے ! عورتوں کے رحم کے دائیں اور بائیں سرے ایک ایک نلی نکلتی ہے جو رحم میں آکر کھلتی ہے ۔ رحم کے دونوں جانب کبوتر کے انڈے کے برابر بیضوی شکل کے کے دو غدود یا بیضہ دانیاں ہوتی ہیں ۔ ہر غدود میں ،جب کوئی لڑکی عالم شباب کی منزل میں پہنچے تو چھوٹے انڈے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان ہی انڈوں سے انسانی زندگی کی تشکیل ہوتی ہے ۔ عورت کے جسم میں ان بیضہ دانیوں یا غدود کا کام ٹھیک وہی ہے جو مردوں کے فوطے جسم کے باہر ہوتے ہیں جبکہ عورت کی بیضہ دانی جسم کے کے اندر ہوتی ہے ۔ بیضہ دانیو ں یا غدودکاکام ٹھیک وہی ہے جو مردوں کے فوطے انجام دیتے ہیں ۔ لیکن مرد کے فوطے جسم کے باہر ہوتے ہیں ۔ جبکہ عورت کی بیضہ دانی جسم کے اندر ہوتی ہے ۔ بیضہ دانیوں کی شکل بادام کی طرح ہوتی ہے ۔ یہ رحم کے دونوں طرف تقریباً تین تین انچ کے فاصلہ پر ہوتی ہیں ۔ جس طرح مرد کے فوطوں میں بے شمار منی کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتوں کے ان غدودں میں جراثیم پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان میں باری باری ایک مہینے میں ایک ہی بیضہ پختہ ہوکر نکلتا ہے یعنی ایک مہینے میں بائیں غدود سے سے تو دوسرے مہینے ، دائیں غدود سے ۔ منی کے جراثیم اسی ایک بیضہ سے ملتے ہیں تو حمل قرارپاتا ہے ۔ بیضہ بنانے والے ان غدودوں کا دوسرا اہم کام زنانہ ہارمونس عورت کے جسم میں نسائیت پیدا کرتے ہیں ۔ ماہواری ان ہی ہارمونس کا نتیجہ ہے کہ زنانہ جسم کی نزاکت ، کشش ، حسن چھاتیوں کا ابھار اعضاء کا توازن و تناسب ، کولھوں کی ساخت ، آواز کی شیرینی اور مزاج کی نزاکت ، یہ سارے مخصوص زنانہ اوصاف ان ہی ہارمونس کی بدولت وجود میں آتے ہیں ۔
عورت کے رحم کے دائیں اور بائیں سروں پر ایک ایک بیضہ نالی نکلتی ہے بیضہ ان ہی نالیو ں کے راستہ سے ہوکر رحم میں پہنچتا ہے اور منی کے جراثیم کے ملنے کا مقام بھی یہی بیضہ نالیاں ہوتی ہیں ۔ دراصل ایک پختہ بیضہ ، نالی کا دو تہائی فاصلہ طے کرکے وہیں وہ منی کے جراثیم کا انتظار کرتا ہے ۔ اگر منی کے جراثیم سے اس کی مڈ بھیڑ ہوجائے تو حمل ٹھہر جاتا ہے اور بیضہ رحم کی دیوراوں سے چپک کر بڑھنے لگتا ہے اور اگر جراثیم اور بیضے کا ملاپ نہیں ہوتا تو وہ رحم میں نہیں ٹھہرتا بلکہ وہ حیض کے خون کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے ۔
No comments:
Post a Comment